ایک شخص کسی بادشاہ کا مقرب اور وفادار تھا۔اِس وجہ سے وہ کافی اہم تھا۔وہ جب بھی بادشاہ کی محفل میں بیٹھتا تو عموماً یہ ضرب المثل بیان کرتا:
اپنے محسن کے ساتھ احسان کی وجہ سے اچھا سلوک کرو۔ رہا بُرائی کرنے والا تو اس کی بُرائی اُس )کو ختم کرنے (کے لیے کافی ہے
درباریوں میں ایک شحص کو اِس کے ساتھ بیر تھا۔خواہ مخواۃ کا حسد۔ اس کی پوری خواہش تھی یہ بادشاہ کا مقرب نہ رہے اور کسی طرح اُسے بادشاہ سے بدظن کر دیا کر دیا جائے۔ اُس نے کئی کوششیں کیں مگر ناکام رہا،چنانچہ اُس نے ایک چال چلی، ایک مرتبہ موقع پا کر اس نے بادشاہ کو بتایاِِ؛ یہ شخص جو آپکے سب سے زیادہ قریب ہے ،آپکے جوتے تک اُٹھاتا ہے حالانکہ حقیقت میں یہ آپ کا دشمن ہے۔ آپ سے محبت نہیں کرتا بلکہ اِس کا کہنا ہے آپ کے منہ سے نہایت گندی بدبو آتی ہے۔
بادشاہ بولا:تمھارے اِس الزام کا کیا ثبوت ہےاور اِس اِلزام کی تصدیق کیسے ہوگی؟
حاسد بولا؛آپ اِس شحص کو شام کو وقت بلوائیں اور اپنے قریب کریں۔آپ خود ہی دیکھ لے گے کہ وہ فوراًاپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے گےتاکہ آپ کی بدبو نہ سونگھ سکے۔بادشاہ بولا؛تم جاؤ،ہم خود اس کی تصدیق کریں گے۔
وہ حاسد بادشاہ کی مجلس سے نکل کر سیدھا اس آدمی کے پاس گیا اور اُسے کھانے کی دعوت دی۔اس شحص کو حاسد کے حسد اور چال کا قطعاً علم نہ تھا۔وہ تو اُسے دوست ہی سمجھتا تھا اور یوں بھی اس کے تعلقات سب سے اچھے تھے۔حاسد نے اُسے کھانا کھلایا جس میں لہسن شامل تھا۔کھانے کے بعد وہ بادشاہ کے دربار جا پہنچا،بادشاہ چلنے لگا تو اس نے اس کےجوتے پکڑ لیے اور ساتھ ہی اپنی عادت کے مُطابق بولا،
ا پنے محسن کے ساتھ احسان کی وجہ سے اچھا سلوک کرو۔ رہا بُرائی کرنے والا تو اس کی بُرائی اُس کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے
بادشاہ نے اس سے کہا ذرامیرے قریب آ۔جب وہ بادشاہ کے قریب ہوا تواُس نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا،مبادہ بادشاہ اس کے منہ سے لہسن کی بدبو نہ سونگھ لے۔بادشاہ نے اپنے دل میں سوچا میرے درباری نے بلاشبہ اس کےبارے میں درست ہی بیان دیا تھا۔
اس واقعہ کے راوی بکر بن عبداللہ المزنی بیان کرتے ہیں کہ بادشاہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے ہاتھ جزا اور سزا لکھتا تھا۔جب اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ یہ شحص میرا مُخلص نہیں بلکہ اندر سے میرا مخالف ہے تو اس نے ایک تحریر اپنے چیف سکریٹری کو لکھی جس کا مضمون یہ تھا؛ ''جب اِس تحریر کا حامل تمھارے پاس آئے تواس کو قتل کرنے کے بعد اُس کی کھال اُتاردواور اُس میں بھس بھر کر میرے پاس بھجوادو؛؛
بادشاہ نے اُس شحص کو خط دیا اور کہا؛؛ اِسے چیف سکریٹری کے پاس لے جاؤ؛؛
وہ اِس سربمہر خط کو لے کر دربار سے باہر آیا تو اُس کو وہی حاسد ملا۔
حسدنے اس خط کو دیکھا تو پوچھا؛؛ارے!یہ تمھارے پاس کیسا خط ہے؟ذرا مجھے دیکھاؤ۔ اُس نے کہا؛؛بادشاہ نے مجھے صلے کے طور پر یہ اِنعام دیا ہے۔اس حاسد نے اصرار کیا ؛؛خط مجھے دے دو۔اس شحص نے کہا؛؛یہ رہا خط یہ تمھارا ہو گیا۔اس نے خط لیا اور خوشی خوشی چیف سکریٹری کے پاس جا پُہنچا۔ اُس نے خط کو کھولا تو کہنے لگا؛؛اس خط میں لکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کر کے تمھاری کھال اُتار کر بادشاہ کے پاس بھجواؤں۔وہ حاسد بولا نہیں نہیں؛یہ خط میرے لیے نہیں ہے ۔بلکے میرے فلاں دوست کا ہے۔ غلطی سے میں نے لے لیا ہے۔چیف سکریٹری بولا؛؛دیکھو اب تم یہاں سے نہیں جا سکتے۔خط میں واضح طور پر ہدایات ہیں کہ جو بھی اِس کا حامل ہے اُس کو قتل کر کے اُس کی کھال میں بُھس بھر دو۔اس نے بڑا واویلا کیا ایک مرتبہ مجھے بادشاہ کے پاس جانے کا موقع دو۔یہ میرے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے۔چیف سکریٹری بولا؛؛اسِ خط کے حصول کے بعدتمھارے پاس واپسی کی کوئی صورت نہیں ہےاور اب موت تمھارا مقدر ہے۔چنانچہ سکریٹری نے اُس کو قتل کروایا اور حسبِ ہدایت اس کی لاش بادشاہ کے پاس بھجوادی۔وہ شحص جو بادشاہ کا مُقرب تھا؛اپنی عادت کے مُطابق دربار میں پُہنچا اور اِتفاق سے اپنی عادت کے مطابق اُس نے وہ ضرب المثل بادشاہ کے سامنے دہرادی۔ بادشاہ کو بڑا تعجب ہوا اور اُس نے پوچھا؛؛میرے خط کا کیا ہوا؟اس نے جواب دیا؛؛ جب میں آپ کا خط لے کر نکلا تو مجھے فلاں شحص ملا۔اس نے مجھ سے درخواست کی کہ یہ خط اُس کو دے دوں؛؛ چنانچہ میں نے وہ خط اُس کو بخش دیا۔
بادشاہ نے اس سے کہا ؛؛اس شخص نے تو مجھے بتایا تھا کہ تم میرے بارے میں کہتے ہوکہ میرے منہ سے بدبو آتی ہے۔کیا یہ سچ ہے؟اس نے کہا حاشاوکلا، میں نے تو اِیسی بات کبھی نہیں کی۔بادشاہ نے کہا ؛؛ اچھا یہ بتاؤ کل جب میں نے تمھیں بُلایا تھا تو تم نے اپنے منہ پر ہاتھ کیوں رکھ لیا تھا؟ وہ کہنے لگا؛؛بادشاہ سلامت !اُس شحص نے مجھے کھانے کی دعوت دی جس میں مجھے خوب لہسن کھلایا،میں نے ہاتھ اِس لیے رکھا تھا کہ کہیں آپ کو اِس ناگوار بو سے تکلیف نہ ہو۔
بادشاہ کہنے لگا ؛؛تم سچ اور درست کہتے ہو۔ اپنی ڈیوٹی پر واپس چلے جاؤ تمھا را قول درست تھا کہ؛؛ بُرائی کرنے والا اپنے کرتوت کا مزا ازخودچکھ لیتا ہے۔ اِسی کو کہتے ہیں ،،چاہ کن راہ چاہ درپیش؛
یعنی-- کنواں کھودنے والا خود ہی اُس میں جا گرتا ہے۔
اپنے محسن کے ساتھ احسان کی وجہ سے اچھا سلوک کرو۔ رہا بُرائی کرنے والا تو اس کی بُرائی اُس )کو ختم کرنے (کے لیے کافی ہے
درباریوں میں ایک شحص کو اِس کے ساتھ بیر تھا۔خواہ مخواۃ کا حسد۔ اس کی پوری خواہش تھی یہ بادشاہ کا مقرب نہ رہے اور کسی طرح اُسے بادشاہ سے بدظن کر دیا کر دیا جائے۔ اُس نے کئی کوششیں کیں مگر ناکام رہا،چنانچہ اُس نے ایک چال چلی، ایک مرتبہ موقع پا کر اس نے بادشاہ کو بتایاِِ؛ یہ شخص جو آپکے سب سے زیادہ قریب ہے ،آپکے جوتے تک اُٹھاتا ہے حالانکہ حقیقت میں یہ آپ کا دشمن ہے۔ آپ سے محبت نہیں کرتا بلکہ اِس کا کہنا ہے آپ کے منہ سے نہایت گندی بدبو آتی ہے۔
بادشاہ بولا:تمھارے اِس الزام کا کیا ثبوت ہےاور اِس اِلزام کی تصدیق کیسے ہوگی؟
حاسد بولا؛آپ اِس شحص کو شام کو وقت بلوائیں اور اپنے قریب کریں۔آپ خود ہی دیکھ لے گے کہ وہ فوراًاپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے گےتاکہ آپ کی بدبو نہ سونگھ سکے۔بادشاہ بولا؛تم جاؤ،ہم خود اس کی تصدیق کریں گے۔
وہ حاسد بادشاہ کی مجلس سے نکل کر سیدھا اس آدمی کے پاس گیا اور اُسے کھانے کی دعوت دی۔اس شحص کو حاسد کے حسد اور چال کا قطعاً علم نہ تھا۔وہ تو اُسے دوست ہی سمجھتا تھا اور یوں بھی اس کے تعلقات سب سے اچھے تھے۔حاسد نے اُسے کھانا کھلایا جس میں لہسن شامل تھا۔کھانے کے بعد وہ بادشاہ کے دربار جا پہنچا،بادشاہ چلنے لگا تو اس نے اس کےجوتے پکڑ لیے اور ساتھ ہی اپنی عادت کے مُطابق بولا،
ا پنے محسن کے ساتھ احسان کی وجہ سے اچھا سلوک کرو۔ رہا بُرائی کرنے والا تو اس کی بُرائی اُس کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے
بادشاہ نے اس سے کہا ذرامیرے قریب آ۔جب وہ بادشاہ کے قریب ہوا تواُس نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا،مبادہ بادشاہ اس کے منہ سے لہسن کی بدبو نہ سونگھ لے۔بادشاہ نے اپنے دل میں سوچا میرے درباری نے بلاشبہ اس کےبارے میں درست ہی بیان دیا تھا۔
اس واقعہ کے راوی بکر بن عبداللہ المزنی بیان کرتے ہیں کہ بادشاہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے ہاتھ جزا اور سزا لکھتا تھا۔جب اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ یہ شحص میرا مُخلص نہیں بلکہ اندر سے میرا مخالف ہے تو اس نے ایک تحریر اپنے چیف سکریٹری کو لکھی جس کا مضمون یہ تھا؛ ''جب اِس تحریر کا حامل تمھارے پاس آئے تواس کو قتل کرنے کے بعد اُس کی کھال اُتاردواور اُس میں بھس بھر کر میرے پاس بھجوادو؛؛
بادشاہ نے اُس شحص کو خط دیا اور کہا؛؛ اِسے چیف سکریٹری کے پاس لے جاؤ؛؛
وہ اِس سربمہر خط کو لے کر دربار سے باہر آیا تو اُس کو وہی حاسد ملا۔
حسدنے اس خط کو دیکھا تو پوچھا؛؛ارے!یہ تمھارے پاس کیسا خط ہے؟ذرا مجھے دیکھاؤ۔ اُس نے کہا؛؛بادشاہ نے مجھے صلے کے طور پر یہ اِنعام دیا ہے۔اس حاسد نے اصرار کیا ؛؛خط مجھے دے دو۔اس شحص نے کہا؛؛یہ رہا خط یہ تمھارا ہو گیا۔اس نے خط لیا اور خوشی خوشی چیف سکریٹری کے پاس جا پُہنچا۔ اُس نے خط کو کھولا تو کہنے لگا؛؛اس خط میں لکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کر کے تمھاری کھال اُتار کر بادشاہ کے پاس بھجواؤں۔وہ حاسد بولا نہیں نہیں؛یہ خط میرے لیے نہیں ہے ۔بلکے میرے فلاں دوست کا ہے۔ غلطی سے میں نے لے لیا ہے۔چیف سکریٹری بولا؛؛دیکھو اب تم یہاں سے نہیں جا سکتے۔خط میں واضح طور پر ہدایات ہیں کہ جو بھی اِس کا حامل ہے اُس کو قتل کر کے اُس کی کھال میں بُھس بھر دو۔اس نے بڑا واویلا کیا ایک مرتبہ مجھے بادشاہ کے پاس جانے کا موقع دو۔یہ میرے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے۔چیف سکریٹری بولا؛؛اسِ خط کے حصول کے بعدتمھارے پاس واپسی کی کوئی صورت نہیں ہےاور اب موت تمھارا مقدر ہے۔چنانچہ سکریٹری نے اُس کو قتل کروایا اور حسبِ ہدایت اس کی لاش بادشاہ کے پاس بھجوادی۔وہ شحص جو بادشاہ کا مُقرب تھا؛اپنی عادت کے مُطابق دربار میں پُہنچا اور اِتفاق سے اپنی عادت کے مطابق اُس نے وہ ضرب المثل بادشاہ کے سامنے دہرادی۔ بادشاہ کو بڑا تعجب ہوا اور اُس نے پوچھا؛؛میرے خط کا کیا ہوا؟اس نے جواب دیا؛؛ جب میں آپ کا خط لے کر نکلا تو مجھے فلاں شحص ملا۔اس نے مجھ سے درخواست کی کہ یہ خط اُس کو دے دوں؛؛ چنانچہ میں نے وہ خط اُس کو بخش دیا۔
بادشاہ نے اس سے کہا ؛؛اس شخص نے تو مجھے بتایا تھا کہ تم میرے بارے میں کہتے ہوکہ میرے منہ سے بدبو آتی ہے۔کیا یہ سچ ہے؟اس نے کہا حاشاوکلا، میں نے تو اِیسی بات کبھی نہیں کی۔بادشاہ نے کہا ؛؛ اچھا یہ بتاؤ کل جب میں نے تمھیں بُلایا تھا تو تم نے اپنے منہ پر ہاتھ کیوں رکھ لیا تھا؟ وہ کہنے لگا؛؛بادشاہ سلامت !اُس شحص نے مجھے کھانے کی دعوت دی جس میں مجھے خوب لہسن کھلایا،میں نے ہاتھ اِس لیے رکھا تھا کہ کہیں آپ کو اِس ناگوار بو سے تکلیف نہ ہو۔
بادشاہ کہنے لگا ؛؛تم سچ اور درست کہتے ہو۔ اپنی ڈیوٹی پر واپس چلے جاؤ تمھا را قول درست تھا کہ؛؛ بُرائی کرنے والا اپنے کرتوت کا مزا ازخودچکھ لیتا ہے۔ اِسی کو کہتے ہیں ،،چاہ کن راہ چاہ درپیش؛
یعنی-- کنواں کھودنے والا خود ہی اُس میں جا گرتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment